السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ : (1) ایک مسجد کی تعمیر جلد بازی میں ۲۰۱٦ء میں کا رکیسٹ لگا کر بناںٔی گںٔی اب جب کہ نئے سرے سے مسجد کی تعمیر ہونے جارہی ہے تو تعمیر شدہ مسجد میں مغرب کی جانب سے ٦ فٹ جگہ عام راستہ کے لئے چھوڑنی تھی جلد بازی اور لا علمی میں اس جگہ منبر و محراب بنا دیا گیا اور کئی عرصہ سے اس جگہ نماز بھی پڑھی جا رہی تھی بعدہ منبر کے دائیں اور بائیں جانب وضو خانہ اور حجرۂ امام بھی بنا دیا گیا جو کہ مسجد کے عرف سے چھوڑے راستہ پر ہے اب جب کہ نئی مسجد کی تعمیر میں مغرب کی جانب ٦فٹ چوڑی اور ٨٧ فٹ لمبی زمین راستہ کے لیے چھوڑنا ہے اور قدیم منبرو محراب کی جگہ راستہ بننا ہے تو از روئے شرع اس کا کیا حکم ہے اور اس کا کیا حل ہو سکتا ہے ؟
(٢)شمال کی جانب سے تقریباً ١٠×٤٨ فٹ مسجد کے حصہ کی زمین ہے جو دکان بنانے کے لیے مل جائیگا آیا اس میں دکان بنانا جائز ہے ؟
(۳) نئی تعمیر میں مسجد کے نیچے بیسمنٹ ہو سکتا ہے یا نہیں یا مشرق کی جانب جہاں ابھی پنج گانہ نماز نہیں ہوئی ہیں بیسمنٹ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟
(٤)مسجد کی تعمیر کے دوران نماز پنج گانہ کے لیے مسجد کے آس پاس گھر کرایہ لے کر نمازجاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں کیوں کہ موجودہ جگہ پر تعمیر کے دوران نماز جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔ برائے کرم ہمارے ان مسائل کا جواب عنایت فرما کرعند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتى محمد کلیم رضا مصباحی ، ہزاری باغ ، جھار کھنڈ
مسجد کی نئ تعمیر میں بیسمنٹ بنانا)9631735520)
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب (١) ظاہر ہے کہ وہ زمین جو مغرب کی جانب ہے-راستہ کے لیے نہیں بلکہ مسجد پر وقف ہے اور جب وہ زمین مسجد پر وقف ہے۔ تو اس میں مسجد کے علاوہ کچھ اور بنانا تغییر وقف ہے اور وقف میں تبدیلی ناجائز و حرام ہے اور خاص کر مسجد کو شارع عام بنانا کہ اس میں کافر،جنبی،حائضی، نفساء، جانور، گاڑی وغیرہ سب گزریں یہ اور اشد حرام ہے ۔
فتاوی عالم گیری میں ہے: “لا يجوز تغيير الوقف عن هيأته فلا يجعل الدار بستانا ولا الخان حماما ولا الرباط دکانا- اھ( کتاب الوقف، الباب : الرابع عشر في المتفرقات) ج ۲، ص ٤٩٠، دار احياء التراث العربي)
الاشباه والنظائر میں ہے : ” ولا يجوز اتخاذ طریق فيه للمرور”اھ(الفن الثالث القول فی احکام المسجد ، ج ۳، ص ۱۸۷ ، ط:زکریا بکڈپو)
فتاوی ہندیہ میں ہے : ” ان أرادوا أن يجعلوا شيئا من المسجدطریقا للمسلمين فقد قیل ليس لهم ذلك وانه صحيح كذا في المحيط” – اه( كتاب الوقف، الباب الحادی عشر فی المسجد الخ، ج ۲، ص۴۵۷، ط: دار احیاء التراث العربي)مسجد کو راستہ بنانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ” بیشک ایسا کرنا حرام قطعی اور ضرور حقوق مسجد پر تعدی اور وقف مسجد میں ناحق دست اندازی ہے شرع مطہر میں بلا شرط واقف کہ اسی وقف کی مصلحت کے لئے ہو وقف کی ہیأت بدلنا بھی نا جائز ہے اگر چہ اصل مقصود باقی رہے۔ تو بالکل مقصد وقف باطل کرکے ایک دوسرے کام کے لئے دینا کیونکر حلال ہو سکتا ہے ……. خصوصا ایسی تبدیلی جس سے خاص مسلمانوں کا حق عام آدمیوں مسلم غیر مسلم سب کے لئے ہو جائے جب وہ سڑک ہوئی تو اس میں مسلم کا فرسب کا حق ہو جائے گا اور پہلے وہ صرف حق مسلماناں تھی تو کیوں کر جائز ہو کہ مسلمانوں کا حق چھین کر عام کر دیا جائے ….. معاذ اللہ اسے مسجدیت سے خارج کر کے گزرگاہ عام کر دیا جائے کہ مسلم کافر جانور پاک نا پاک سب کے لئے شارع عام ہو جائے یہ ہر گز حلال نہیں ہو سکتا “۔ اھ( فتاوی رضویہ، کتاب الوقف ،ج١٦،ص٣٥٢،٣٥١،ط: مرکز اہل سنت برکات رضا)
(٢)مسجد کے شمال کی جانب جو زمین ہے اگر وہ فناء مسجد ہے یعنی اس زمین اور مسجد کے درمیان راستہ نہیں ہے؛ تو اس میں دکان بنانا جائز نہیں ہے ۔
غنيه میں ہے: “وفناؤه هو المكان المتصل به ليس بينه وبين (المسجد)
طریق ” اھ( فصل فی احکام المسجد ج ۱، ص ۶۱۴،ط : سہیل اکیڈمی)
فتاوی عالم گیری میں ہے:” قيم المسجد لا يجوز له أن يبنى حوانيت في حدالمسجد أو في فنائه لان المسجد اذا جعل حانوتا اومسكنا تسقط حرمته و هذا لا يجوز والفناء تبع المسجد فيكون حكمه حكم المسجد كذا في محيط السرخسي” اه (كتاب الوقف الباب الحادي عشر في المسجد، ج ۲، ص ٤٦٢، ط: داراحياء التراث العربي)
فتاوی رضویہ میں ہے: ” جو زمین مسجد ہو چکی اس کے کسی حصہ کسی جز کا غیر مسجد کر دینا اگرچہ متعلقات مسجد ہی سے کوئی چیز ہو حرام قطعی ہے ……..ان دکانوں میں بیٹھنا حرام ہوگا، ان سے کوئی چیز خریدنے کے لئے جانا حرام ہوگا، فنائے مسجد میں دکانیں کرنے کو تو علماء نے منع فرمایا۔”اھ (کتاب الوقف ج۱۶، ص ۴۸۲، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا )
مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے : ” مسجد تعمیر ہو جانے کے بعد فاضل زمین کی حیثیت عموما فناںٔے مسجد کی ہوتی ہے۔ اگر بچی ہوئی زمین فنائے مسجد ہے تو اسے اجارے پر دینا جائز نہیں۔ فنائے مسجد کی حرمت مثل مسجد ہے ۔ اھ ( ج۱،ص ۳۲۲،ط:مجلس شرعی)
(۳) مذکورہ نئی تعمیر میں مسجد کے نیچے بیسمنٹ بنانا جائز نہیں ، کیوں کہ مسجد تحت الثریٰ سے لے کر آسمان تک مسجد ہی ہوتی ہے اور مسجد ہونے کے بعد اس میں مسجد کے علاوہ کوئی بھی چیز بنانا جائز نہیں اگرچہ وہ مصالح مسجد سے ہو، یہی حکم مشرق کی جانب والی زمین کا ہے اگر وہ حدود مسجد میں ہے یا وہ فناءمسجد ہے ہاں اگر نںٔی زمین مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس میں بیسمنٹ بنانے کی صورت یہ ہے کہ پہلے بیسمنٹ بنا لیں اس کے بعد اوپری حصہ کو مسجد کر دیں اور اگرپہلے ہی اس زمین کو مسجد کر دیا ؛تو اب وہاں بھی بیسمنٹ بنانا جاںٔز نہ ہوگا۔
اسی طرح کے سوال کے جواب میں فتاوی رضویہ میں ہے: “مسجد مسجد ہو جانےکے بعد دوسرے کام کے لئے کرنا حرام حرام سخت حرام ہے ان پر فرض ہے کہ مسجد قدیم کا تہ خانہ بدستور سابق بند کر دیں اور اب کہ مسجد جدید کو مسجد کر چکے اس کے تہ خانے کو بھی کرایہ پر دینا حرام ہے۔ ہاں مسجد کر دینے سے پہلے دکانیں وقف مسجد کے لںٔے بناتے اور اس کے بعد ان کی چھت کو مسجد کرتے تو جاںٔز تھا۔”اھ ( کتاب الوقف،ج١٦، ص٥٠٣،ط:مرکز اہلسنت برکات رضا)
در مختار میں ہے : ” لو بنی فوقه بيتا للامام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجلاية ثم اراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تاترخانية ، ولا يجوز اخذ الاجرة منه ولا أن يجعل شيئًا منه مستغلاً و لا سكني بزازية “(كتاب الوقف، ج ۴، ص ۳۵۸، ط: دار الفکر بیروت )
(٤) جب تک گنجائش ہو وہیں نماز پڑھیں اور دوران تعمیر جتنے لوگوں کی گنجائش ہو اتنے لوگ وہاں جماعت سے نماز ادا کریں بقیہ لوگ کرایہ پر مکان لے کر یا جہاں بھی جگہ میسر ہو یا قریب میں سنی مسجد ہو تو وہاں جا کر نماز پڑھیں ۔
فتاوی فیض الرسول میں ہے: زیر تعمیر مسجد میں جب کہ نماز باجماعتپڑھنے کی گنجائش نہ ہو تو کوئی بھی نماز ہو مدرسہ میں پڑھ سکتے ہیں ۔” اھ (كتاب الوقف، فصل في المسجد، ج ۲، ص٣٥٢،ط: دار الاشاعت فیض الرسول) والله تعالى اعلم –
کتبہ: محمد امجد رضا علیمی
دار الافتا مرکز تربیت افتا او جھا گنج بستی
Click here بعد توبہ امامت کا حکم
Golconda fort trip click here
Recent Comments